ندیا کنارے۔۔۔۔دن ڈھلتے ہی۔۔۔
ندیا کنارے، دن ڈھلتے ہی
وہ اک نازک اندام سی لڑکی
سنہری ذلفیں پھیلائے
تتلی کے رنگوں کا سا چھاتہ پھیلائے ،
میرے دل کے نازک گوشوں پہ براجمان ہے۔
میں اڑان میں ہوں ، اس کے پاس ہواٶں میں
اڑان میں ہی اس حسن کی ملکہ سے پوچھا
آج ندیا کنارے، تم چاند ستاروں کی ملکہ
کیا اپنے دکھوں کی بات کرنے آئی ہو?
خزاں کے ٹوٹے پتوں کی با ت کرنے آٸی ہو
چکنی مٹی کے گھروندوں کی بات کرنے آٸی ہو
ندیا کنارے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خزاں کا یخ پانی
پانی گرداب میں نہیں
چپ چاپ کھڑا تمھاری سرگوشی سننے کے لیے بے تاب ہے
تو سنو اے معصوم دیوی!!!
گر تمھیں جو برا نہ لگے تو تم اپنے اچھے پل کی بات کرو
میں اپنے دکھوں کی بات کروں
ان لمحوں کی بات کریں
جو خزاں کے سنگ بیت گئے
گر تمھیں وقت جو ملا کرے
اس ندیا کنارے بیٹھا کرو
اپنے گزرے پل کو یاد کرو
میں گزرے پل کو گنگنایا کروں
اور -----------
ان پیاری رتوں میں
ان رنگ رلیوں میں
ہم پیار کی خوشبو سے گلشن کو معطر کریں
ان بکھرے ہوئے نظاروں کو ہم آنکھوں میں تصویر کرلیں
پتھر پہ گرتے ہوئے پانی سے
ہمارے خوابوں کے شگوفے پھوٹیں
ہم نئیے خواب تعبیر کریں
اس وقت کے ڈھلتے سورج کو
ہم چاہت کا اک رنگ دیں
ہم چاہت کی جاگیر کریں
گر فرصت تم کو جو ملا کرے
پھر سے ندیا کنارے آن بیٹھو
ہم یوں ہی آزاد بیٹھیں
ہم یوں ہی آزاد رہیں
اپنے پیار کے جادو سے
لمحوں کو زنجیر کریں
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
خزاں تو آنی جانی ہے
بہار کی امید لے کر چلیں۔۔نیا سویرا کریں
شکیل احمد چوہان