جب کبھی چھیڑا جنوں نے دیدہء خوں بار کو
بھر دیا پھولوں سے ہم نے دامن ِکہسار کو
ٹھیس لگ جائے نہ اُن کی حسرتِ دیدار کو
اے ہجومِ غم! سنبھلنے دے ذرا بیمار کو
فکر ہے زاہد کو حور و کوثر و تسنیم کی
اور ہم جنت سمجھتے ہیں ترے دیدار کو
دیکھنے والے نگاہِ مست ساقی کی کبھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں ساغرِ سرشار کو
ہرقدم پر، ہر روش پر، ہر ادا پر، ہر جگہ
دیھکنا پڑتا ہے انداز، نگاہِ یار کو
لاکھ سمجھایا جگر کو، ایک بھی مانی نہ بات
دُھن لگی تھی کوچہء قاتل کی میرے یار کو