رخسار آج دھو کر شبنم نے پنکھڑی کے
رخسار آج دھو کر شبنم نے پنکھڑی کے
کچھ اور بخش ڈالے انداز دلکشی کے
ایثار، خود شناسائی، توحید اور صداقت
اے دل ستوں نہیں یہ ایوان ِبندگی کے
رنج و الم میں کچھ کچھ آمیزش ِمسرت
ہیں نقش کیسے دلکش ، تصویر ِزندگی کے
فرضی خدا بنائے، سجدے کئے بتوں کو
اللہ رے کرشمے احساسِ کمتری کے
قلب و جگر کے ٹکڑے ،یہ آنسوؤں کے قطرے
اللہ راس لائے ، حاصل ہیں زندگی کے
صحرائیوں سے سیکھے کوئی رموز ِہستی
آبادیوں میں اکثر دشمن ہیں آگہی کے
جان ِخلوص بن کر اے شکیب اب تک
تعلیم کررہے ہیں آداب زندگی کے