زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غلام گردشوں میں ساری عمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
بس اتنا ہو کہ شغلِ ناؤ نوش مستقل رہے
قلم کو سرنگوں کیا ہے سرفراز کر کے بھی
کچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
بجھے پڑے ہیں خود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بس ایک قدم پڑا تھا بے محل سو آج تک
میں در بدر ہوں اہتمام رخت و ساز کر کے بھی