پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہء رسوائی ہے
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہء رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
اپنا مسلک ہی نہیں زخم دکھاتے پھرنا
جانتا ہوں کہ ترے پاس مسیحائی ہے
سانحہ پھر کوئی بستی میں ہوا ہے شاید
شام روتی ہوئی جنگل کی طرف آئی ہے
صبح دم دل کے دریچوں میں پہ یہ ہلکی دستک
دیکھ تو بادِ صبا کس کی خبر لائی ہے
کچھ تو ہم مائل گریہ تھے بڑی مدت سے
کچھ تری یاد بڑی دیر کے بعد آئی ہے
دور اڑتے ہیں فضاوں میں پرندے عامر
میری کشتی کسی ساحل کے قریب آئی ہے