تیرگی پُرہول، صحرا بے اماں، بادل سیاہ
اندھیری رات
تیرگی پُرہول، صحرا بے اماں، بادل سیاہ
ایک میں، اور یہ اندھیری رات کی خونی سیاہ
کون ہے اُلجھی ہوئی شاخوں کے اندر بے قرار
کون مجھ کو گھورتا ہے جھاڑیوں سے بار بار
کون یہ آواز دیتا ہے کہ آتا کیوں نہیں
پردہ ہائے محملِ ظلمت اٹھاتا کیوں نہیں
ہاں لپک اُٹھا وہ کوندا سا دلِ سرشار میں
اب میں سمجھا کون ہے اِن پردہ ہائے تار میں
مجھ سے ملنے آئی ہے رتھ میں اندھیری رات کی
ہو نہ ہو یہ رُوح مُضطر ہے بھری برسات کی