ہر سمت جہاں میں آگ لگا رہا ہے کوئی
ہر سمت جہاں میں آگ لگا رہا ہے کوئی
سرخ لہو سے زمیں سجا رہا ہے کوئی
محبتیں اختلاف بن رہی ہیں یہاں
ہمارے بیچ کیا نفرتیں اگا رہا ہے کوئی
طلوعِ صبح میں نشۂ خواب لینے والو
اب اٹھ بھی جاؤ کہ تم کو جگا رہا ہے کوئی
زمین تنگ کر دی اس زمین والوں نے
نشاں مزار کے بھی اپنے مٹا رہا ہے کوئی
نہ سمت ہے نہ راہ ہے نہ منزلِ رہبر
ہوا کے رخ پر تجھ کو بلا رہا ہے کوئی