پرسش کو مری کون مرے گھر نہيں آتا
تيور نہیں آتے ھيں کہ چکر نہيں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ھو ملنےکي عدو سے
ايمان سے کہہ دوں مجھے باور نہيں آتا
ڈرتا ھے کہيں آپ نہ پڑ جائے بلا ميں
کوچے ميں ترے فتنہء محشر نہيں آتا
جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی ديکھ لے ظالم
پھر ديکھوں کہ رونا تجھے کيو نکر نہيں آتا
کہتے ہيں يہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمہارے
سينے سے تڑپ کر کبھی باھر نہيں آتا
دشمن کو کبھی ہوتی ہے مرے دل پہ رقعت
پر دل يہ تيرا ہے کہ کبھی بھر نہيں آتا
کب آنکھ اٹھاتا ہوں کہ آتے نہيں تيور
کب بيٹھ کے اٹھتا ہوں کہ چکر نہيں آتا
غربت کدہ دہر ميں صدمے سے ہيں صدمے
اس پر بھی کبھی ياد ہميں گھر نہيں آتا
ہم جس کی ہوس ميں ہيں امير آپ سے باہر
وہ پردہ نشين گھر سے باہر نہيں آتا